وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا
ہوئی ہے رات وہ بارش ، گماں نہ تھا جس کا

ہوائیں خود اسے ساØ+Ù„ پہ لا Ú©Û’ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ گئیں
وہ ایک ناؤ کوئی بادباں نہ تھا جس کا

اسی کے دم سے تھی رونق تمام بستی میں
کہ خندہ لب تھا مگر غم عیاں نہ تھا جس کا

جلی تو یوں کہ ہوئے راکھ راکھ جسم و جاں
عجیب آگ تھی کوئی دھواں نہ تھا جس کا

گلی گلی میں خموشی پہن کے پھرتا تھا
کوئی تو تھا کہ کہیں ہم زباں نہ تھا جس کا
Ù+Ù+Ù+